معروف مسلم اسکالر ڈاکٹر یوسف قرضاوی اپنی کتاب “الاسلام حَلّ المشكلات المرأة” (اسلام: عورت کے مسائل کا حل) میں لکھتے ہیں:
“عورت خاندان کی بنیاد ہے، اور خاندان معاشرے کا خلیہ۔ اگر عورت بیدار، باشعور اور باوقار ہو تو نسلوں کی بنیاد بھی روشن ہوتی ہے۔”
یہ سچائی اس حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ عورت صرف فرد نہیں، بلکہ انسانیت کی بقاء اور تہذیبوں کی تشکیل کی ضامن ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عورت کو نہ صرف وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا بلکہ بعض اوقات زندہ درگور بھی کر دیا جاتا تھا۔ عیسائیت کے ابتدائی نظریات میں بھی عورت کو گناہ کی جڑ اور مرد کی لغزش کا سبب تصور کیا گیا، جیسا کہ “Book of Genesis” میں حضرت حوّا کو وسوسے کی بنیاد قرار دیا گیا۔ برعکس اس کے، اسلام نے عورت کو عزت، حقوق اور برابری عطا کی، ماں کی گود کو جنت قرار دیا، بیوی کو سکون کا ذریعہ بنایا، اور بیٹی کو رحمت کہا۔
عورت نہ صرف نسلِ انسانی کی پرورش کرنے والی ہے بلکہ معاشرتی و اخلاقی اقدار کی محافظ بھی ہے۔
اسلام نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت سے بے مثال عزت، عدل، اور حقوق عطا کیے، جبکہ دنیاوی معاشرے اکثر اس مقام کو نظر انداز کرتے آئے ہیں۔
عورت کے مقام کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں اس کے حقوق کو عملاً نافذ کریں، تعلیم و شعور عام کریں، اور معاشرتی ذہنیت کو مثبت سمت میں تبدیل کریں۔
اب جب ہم نے عورت کی اہمیت اور انسانی معاشرے میں اس کے کردار کی بنیاد بیان کی، تو لازم ہے کہ مختلف مذاہب میں عورت کی حیثیت کا تقابلی جائزہ لیا جائے تاکہ دین و دنیا میں اس کے مقام کا ارتقاء سمجھا جا سکے۔ اگر ہم تاریخ کے آئینے میں دیکھیں تو عورت کی حیثیت ہمیشہ بدلتی رہی ہے؛ اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں بیٹی کو زندہ دفن کیا جانا، عورت کو وراثت سے محروم رکھنا اور اُسے شرم کا باعث سمجھنا عام رواج تھا۔ قرآن نے اس ظلم کو یوں بیان کیا: “وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ، بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ” (التکویر: 8-9)۔ اسلام نے عورت کو عزت، وراثت، تعلیم، نکاح، طلاق اور ماں، بیوی، بیٹی و بہن کے طور پر باعزت حیثیت عطا کی، جیسا کہ ارشاد ہوا: “وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ” (البقرہ: 228)۔ ڈاکٹر خالد علوی اپنی کتاب “اسلام اور عورت” میں کہتے ہیں: “اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا جو اس سے قبل کسی نظام میں نہیں تھا۔” اس کے برعکس عیسائیت میں ابتدائی ادوار میں عورت کو گناہ کی جڑ قرار دیا گیا، حتیٰ کہ Council of Macon (585 AD) میں اس پر بحث ہوئی کہ آیا عورت انسان ہے یا نہیں، اور چرچ میں اس کا کردار صدیوں محدود رہا۔ یہودیت میں عورت کو بعض طہارتی احکام میں ناپاک سمجھا گیا۔ ہندو دھرم میں ستی جیسی مظلومانہ رسم اس بات کی غماز ہے کہ عورت کو مرد کے ساتھ جینے کا نہیں، مرنے کا پابند سمجھا جاتا تھا۔ مغربی دنیا میں اگرچہ صنعتی انقلاب سے قبل عورت کم اجرت والی مزدور اور بے اختیار تھی، تاہم بیسویں صدی میں “فیمینزم” تحریک کے ذریعے عورت نے تعلیم، ووٹ اور ملازمت جیسے حقوق حاصل کیے۔ جان اسٹورٹ مل نے اپنی کتاب The Subjection of Women میں لکھا کہ “عورتوں کی محکومی ایک سماجی تعمیر ہے، نہ کہ فطری حالت۔” پھر بھی UNDP Gender Inequality Index 2024 کے مطابق عورتیں اب بھی مغربی معاشروں میں مکمل مساوات سے محروم ہیں۔ یوں واضح ہوتا ہے کہ عورت کو سب سے متوازن، مکمل اور فطری حقوق اسلام نے عطا کیے۔ دیگر مذاہب یا تو عورت کو کم تر سمجھتے رہے یا اسے محدود کیا، جبکہ مغرب نے محض قانونی مساوات دی مگر روحانی اور معاشرتی عزت آج بھی ناپید ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی تعلیم، سماجی بیداری، اور قانون سازی کے ذریعے عورت کے حقوق کو محفوظ کیا جائے تاکہ وہ دنیا و دین دونوں میدانوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے۔
اسلام وہ پہلا دین ہے جس نے عورت کو محض ایک صنفِ نازک نہیں بلکہ ایک باعزت، بااختیار اور قابلِ احترام شخصیت کا درجہ دیا۔ قرآنِ مجید عورت کے حقوق کو مرد کے برابر تسلیم کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
“وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ”
“اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں پر (ان کے) مناسب طور پر ہیں۔”
(سورۃ البقرہ، آیت 228)
اسلام نے عورت کو ماں کے طور پر جنت کا دروازہ قرار دیا؛ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“جنت تمہاری ماں کے قدموں تلے ہے” (مسند احمد، 15715)۔
عورت کو وراثت میں حصہ دینے کا حکم دیا گیا:
“وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ” (سورۃ النساء، آیت 7) — اور بیوی کو حق مہر ادا کرنے کی تاکید کی گئی:
“وَآتُواْ ٱلنِّسَآءَ صَدُقَٰتِهِنَّ نِحْلَةً” (النساء: 4)۔
حتیٰ کہ بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین کے حقوق کو بھی مکمل تحفظ دیا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے عورت کے بارے میں فرمایا:
“میں تمہیں عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر لیا ہے۔” (صحیح مسلم، 1218)
اسلام نے عورت کو عزت، عدل، خودمختاری اور تحفظ جیسے وہ تمام بنیادی حقوق عطا کیے جو آج کی دنیا بھی تسلیم کرتی ہے، مگر اکثر ان پر عمل نہیں کرتی۔ اگر آج ہم انہی قرآنی احکامات کو خلوصِ نیت سے نافذ کریں تو عورت کا مقام معاشرے میں بحال ہو سکتا ہے۔
اسلام سے پہلے مختلف مذاہب اور معاشروں میں عورت کو حقیر، کم تر اور محض ایک استعمال کی شے سمجھا جاتا تھا۔ عرب معاشرے میں بیٹی کی پیدائش کو عار سمجھا جاتا اور کئی والدین اپنی بچیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، جس کا ذکر قرآن نے یوں کیا: “وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ، بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ” (التکویر: 8-9)۔ ہندو معاشرے میں بیوہ عورت کو شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جلا دینا (ستی کی رسم) عام تھا، جبکہ یونانی اور رومی تہذیبوں میں عورت کو انسان کم، شہوت کی تسکین کا ذریعہ زیادہ سمجھا جاتا۔ مگر اسلام نے عورت کو عزت، وقار، وراثت، تعلیم، مشورہ، اور رائے کے بنیادی حقوق دیے۔ قرآن میں ارشاد ہے: “وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ” (البقرہ: 228) یعنی عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے ان پر ہیں۔ اسلام نے عورت کو نہ صرف ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں مقام عطا کیا، بلکہ روحانی، سماجی اور اقتصادی سطح پر اس کے کردار کو تسلیم کیا۔ اگر ہم اسلامی تاریخ میں نظر دوڑائیں تو کئی عظیم خواتین ایسی نظر آتی ہیں جو آج کی مسلم خواتین کے لیے رول ماڈل ہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، جو ایک کامیاب تاجرہ تھیں، نہ صرف پیغمبر ﷺ کی اولین زوجہ تھیں بلکہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون بھی تھیں؛ اُن کا اعتماد، استقامت اور خلوص ہر مسلمان عورت کے لیے مشعل راہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا علم و فقہ میں اتنی ممتاز تھیں کہ بڑے بڑے صحابہ اُن سے دینی مسائل پوچھا کرتے۔ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا زہد، حلم اور محبت کا پیکر تھیں۔ ان سب ہستیوں کی زندگیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام نے عورت کو کبھی کم تر نہیں سمجھا بلکہ اس کے کردار کو بلند کیا۔ آج بھی اگر مسلم دنیا کی خواتین ان عظیم خواتین کے نقش قدم پر چلیں تو وہ دنیا میں علم، اخلاق، قیادت اور کردار کا روشن نمونہ بن سکتی ہیں۔
عورت انسانی تمدن کی وہ معمار ہے جس کی شرکت کے بغیر ترقی کا کوئی خواب مکمل نہیں ہو سکتا۔ تاریخ اور حالیہ دنیا اس حقیقت کی گواہ ہے کہ خواتین نے سائنسی، طبی، اور معاشرتی میدان میں ایسی خدمات انجام دی ہیں جو نہ صرف قابلِ ستائش ہیں بلکہ نسلِ انسانی کے لیے رہنما اصول بھی بنی ہیں۔ مثال کے طور پر، سائنسی دنیا میں میڈم ماریہ کیوری (Marie Curie) کا کردار ناقابلِ فراموش ہے، جنہوں نے ریڈیم (Radium) اور پولونیم (Polonium) جیسے ریڈیوایکٹیو عناصر دریافت کیے، اور دو بار نوبل انعام جیت کر دنیا کی پہلی دوہری نوبل انعام یافتہ شخصیت بن گئیں۔ اسی طرح، طب کے میدان میں ڈاکٹر رُوتھ فاو (Dr. Ruth Pfau) کا پاکستان میں جذام (leprosy) کے خلاف جاری پچاس سالہ مشن، جس کے باعث ملک کو 1996 میں WHO کی جانب سے لیپروسی فری نیشن قرار دیا گیا، ایک زندہ مثال ہے کہ کس طرح ایک عورت تن تنہا ایک قوم کی صحت پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ مزید برآں، معاشرتی خدمت کے شعبے میں مدر ٹریسا (Mother Teresa) کی سادگی، انسان دوستی اور بیماریوں سے لڑتے محتاجوں کی بے لوث خدمت نے انسانیت کے لیے قربانی اور ایثار کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ انہوں نے کلکتہ کی گلیوں میں بے سہارا مریضوں کو محبت، خدمت اور dignity دی، اور 1979 میں نوبل پیس پرائز حاصل کیا۔ اس کے علاوہ، تعلیم کے میدان میں ملالہ یوسفزئی کی جدوجہد دنیا بھر کی لاکھوں محروم لڑکیوں کے لیے امید کا پیغام ہے۔ اقوامِ متحدہ کی “UN Women Global Report 2023” کے مطابق، ان شعبہ جات میں خواتین کی فعال شمولیت نے سماجی اور انسانی ترقی کی رفتار کو دوگنا کر دیا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ چاہے سائنس ہو، طب ہو یا معاشرتی خدمت، عورت نے ہر میدان میں اپنے علم، ہمدردی اور قیادت سے وہ نقوش چھوڑے ہیں جن پر انسانیت آج بھی فخر کر سکتی ہے۔
آج کی دنیا میں خواتین نے اپنے علم، فہم، قیادت اور جرات مندی سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف گھریلو زندگی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست، سائنسی تحقیق اور خلائی تسخیر جیسے پیچیدہ اور مشکل میدانوں میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کارہائے نمایاں انجام دے سکتی ہیں۔ سیاسی قیادت کی ایک درخشاں مثال نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن ہیں، جنہوں نے COVID-19 کی عالمی وبا کے دوران غیر معمولی بصیرت، فیصلہ سازی اور ہمدردی سے اپنی قوم کو محفوظ رکھا، جس پر دنیا بھر میں ان کی حکمت عملی کو سراہا گیا۔ اسی طرح، جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے طویل عرصے تک جرمن سیاست میں استحکام، عقل مندی اور تدبر کے ساتھ قیادت کی اور یورپ میں خواتین کی سیاسی رہنمائی کی علامت بن کر ابھریں۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو انڈیا کی اندرا گاندھی اور پاکستان کی محترمہ بینظیر بھٹو وہ نمایاں سیاسی شخصیات ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے ممالک کی باگ ڈور سنبھالی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی قیادت کا لوہا منوایا۔ محترمہ بینظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن کر دنیا بھر کی مسلم خواتین کے لیے امید کی کرن بنیں۔ عہدِ جدید میں عورت کا کردار صرف زمین تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب وہ خلا کی وسعتوں تک بھی پہنچ چکی ہے۔ حالیہ مثال امریکی خلانورد کرسٹینا کوچ (Christina Koch) کی ہے، جنہوں نے خلا میں 328 دن مسلسل گزار کر خواتین کے لیے خلائی تحقیق کی نئی راہیں کھولیں۔ ان کے ساتھ ساتھ جیسیکا میر نے بھی پہلی بار مکمل خواتین پر مشتمل خلائی چہل قدمی (Spacewalk) کر کے تاریخ رقم کی۔ ان تجربات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خواتین اب سائنسی تحقیق، قیادت اور ایجادات کے سفر میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ نمایاں طور پر کامیاب بھی ہو رہی ہیں۔ یہ حقیقت مسلم ہے کہ جہاں عورت کو مواقع فراہم کیے جائیں، وہ وہاں علم، تدبر، حوصلے اور قیادت کی روشنی بکھیرتی ہے۔
یوں جہاں خواتین نے بین الاقوامی سیاست، سائنسی ایجادات اور خلائی تسخیر جیسے اعلیٰ ترین میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، وہیں وہ گھریلو زندگی کے نظم و نسق، جذباتی توازن، اور خاندانی نظام کی تشکیل میں بھی ایک ناقابلِ تردید مقام رکھتی ہیں۔ گھر کی فضا کو پُر سکون اور منظم رکھنا، اہلِ خانہ کی ضروریات کو خوش اسلوبی سے پورا کرنا، بچوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت، اور مالی امور میں کفایت شعاری جیسے معاملات وہ خاموشی مگر غیرمعمولی بصیرت سے انجام دیتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیم UN Women کی 2023 کی رپورٹ “The Value of Unpaid Care Work” کے مطابق، دنیا بھر میں خواتین ہر روز اوسطاً 4.2 گھنٹے غیر معاوضہ گھریلو خدمات انجام دیتی ہیں، جو عالمی معیشت میں 10 ٹریلین ڈالر سالانہ کی قدر کے برابر ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک عورت کا کردار صرف معاشی و سیاسی حدود میں محدود نہیں، بلکہ وہ گھر کی پہلی درسگاہ، جذبوں کی اولین ترجمان، اور نسلوں کی معمار ہوتی ہے۔ وہ خواتین جو بظاہر کسی ملازمت یا کاروبار سے وابستہ نہیں، وہ بھی خاموشی سے اپنی قربانیوں سے ایک مضبوط معاشرہ تشکیل دے رہی ہوتی ہیں۔ آج ہزاروں خواتین ہنر مندی کے ذریعے آن لائن کاروبار، گھریلو مصنوعات، ہوم فوڈ، اور ٹیوشن کے شعبے میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، لاہور، کراچی اور فیصل آباد جیسے شہروں میں ہزاروں خواتین سوشل میڈیا اور ای-کامرس پلیٹ فارمز کے ذریعے ہوم بیسڈ بزنسز چلا کر نہ صرف خود کفیل بن چکی ہیں بلکہ گھریلو معیشت میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ معروف مفکرہ بانو قدسیہ بجا کہتی ہیں: “عورت جب گھر میں سکون بانٹتی ہے، تو وہ معاشرے کے ریشے ریشے کو سنوارتی ہے۔” پس، عورت کا کردار خواہ چولہے کے پاس ہو یا لیپ ٹاپ کے سامنے، اس کی جدوجہد، دانشمندی اور قربانی ہی معاشرتی ترقی کی اصل بنیاد ہے۔
📍 English Language Educator | Blogger & Content Strategist | 7+ Years in Educational Blogging
Nosheen Bashir is a dedicated English teacher and experienced blogger with over seven years of expertise in content creation and educational writing. Passionate about language, literature, and effective communication, she combines her teaching experience with blogging skills to create insightful, research-backed content that helps learners and educators alike.
🔹 Expertise & Achievements:
✔ English Language Education: A skilled educator with years of experience in teaching English grammar, literature, and communication skills to students of varying levels.
✔ Educational Blogging: Running a successful blog for 7+ years, delivering well-structured, engaging content on language learning, writing techniques, and academic success.
✔ SEO & Content Strategy: Specializes in creating high-ranking, authoritative articles that follow Google’s EEAT principles, ensuring content that is both informative and search-friendly.
✔ Student-Centric Approach: Committed to making English easier, engaging, and accessible, helping readers and students improve their language proficiency.
🚀 With a passion for teaching and writing, Nosheen Bashir is dedicated to crafting educational content that empowers students, teachers, and language enthusiasts worldwide.