امتِ مسلمہ کے زوال کے نمایاں اسباب 

امتِ مسلمہ کے زوال کے نمایاں اسباب

۱۔ علمی و فکری پسماندگی

کبھی مسلمان “علم کا مینار” تھے، آج ہم دنیا کی تعلیمی دوڑ میں پیچھے ہیں۔

اقوام متحدہ کی 2024ء کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلم دنیا کے اکثر ممالک میں شرحِ خواندگی عالمی اوسط سے کم ہے۔

مولانا الطاف حسین حالی نے کہا تھا:

“وہ زمانے میں معزز تھے مسلم ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر

امتِ مسلمہ کے زوال کی ایک بڑی وجہ علمی اور فکری پسماندگی ہے، جس نے مسلمانوں کو نہ صرف معاشی و سائنسی میدان میں پیچھے دھکیل دیا بلکہ فکری قیادت سے بھی محروم کر دیا۔ یونیسکو کی “Global Education Monitoring Report 2023” کے مطابق مسلم دنیا کے بیشتر ممالک میں خواندگی کی شرح عالمی اوسط سے کم ہے، جبکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں اور ریسرچ سینٹرز کی کمی نے سائنسی اختراعات اور فکری رہنمائی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن اپنی کتاب Islam and Modernity میں لکھتے ہیں کہ جب مسلم معاشرے نے اجتہاد اور تنقیدی فکر کے دروازے بند کیے، تو وہ ماضی کی علمی میراث پر فخر تو کرتے رہے، مگر نئی فکری بنیادیں قائم نہ کر سکے، جس کے نتیجے میں مغرب علمی قیادت سنبھال بیٹھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج امتِ مسلمہ جدید دنیا کے علمی و فکری مباحث میں محض صارف کی حیثیت رکھتی ہے، خالق یا رہنما کی نہیں۔

۲۔ باہمی اختلافات اور فرقہ واریت
  • اخبارات جیسے ڈان اور جنگ میں آئے دن یہ خبریں ملتی ہیں کہ مسلم ممالک کے درمیان اختلافات عالمی طاقتوں کو موقع فراہم کرتے ہیں۔

  • ایک جسم کی طرح ہونے کے بجائے ہم گروہوں میں بٹ گئے ہیں، جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ میں آیا: “مؤمنین ایک جسم کی مانند ہیں”۔

شاعر اقبال نے خبردار کیا تھا:
“فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟”

مسلمانوں میں فرقہ وارانہ اختلافات — جیسے شعیہ، سنی، دروز و دیگر فرقوں کے درمیان تلخی — نہ صرف نظریاتی طور پر بلکہ سیاسی، معاشرتی اور جغرافیائی عوامل کی بنا پر گہرا اور خطرناک رخ اختیار کر چکے ہیں۔ جدید سیاسی ماحول میں فرقہ وارانہ گروہ اکثر طاقت کے حصول، سیاسی کنٹرول، یا شناخت کی توازع کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جس سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور مشترکہ شناخت کو شدید نقصان پہنچتا ہے ۔ پاکستان میں 2024 میں کرم میں ہونے والا سنگین حملہ — جہاں شعیہ مسلمانوں سے بھری ایک قافلے پر حملہ ہوا جس میں 54 افراد ہلاک اور 86 زخمی ہوئے — فرقہ وارانہ تشدد کی تازہ اور دلخراش مثال ہے، جو واضح طور پر اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ فرقہ واریت مسلم اُمّت کے روحانی اور سماجی اتحاد کو کس قدر نقصان پہنچا رہی ہے ۔

۳۔ قیادت کا بحران

مسلمانانِ عالم آج اایسے بحران سے و چار ہیں جہاں حکمران طبقہ عوام کے سامنے جواب دہ ہونے کے بجائے اختیارات کو ذاتی مفاد میں استعمال کرتا ہے، اور ریاستی ادارے شفافیت سے عاری ہیں۔ معروف ماہرِ معیشت ڈاکٹر ایم۔ عمر چپڑا اپنی کتاب Muslim Civilization: The Causes of Decline and the Need for Reform (2008) میں واضح کرتے ہیں کہ مسلم تہذیب کے زوال کی ایک بڑی وجہ حکمرانوں کی جواب دہی سے بے نیازی ہے، جس نے بدعنوانی، نااہلی اور عوامی اعتماد کے خاتمے کو جنم دیا۔ اسی تناظر میں Al-Ummah ویب سائٹ (2025) کی تحقیق بتاتی ہے کہ ماضی میں خلافتِ راشدہ اور عباسی دور میں حکمران عوامی مفاد کے لیے شفاف حکمرانی کے اصول اپناتے تھے، جبکہ آج مسلم دنیا میں ادارہ جاتی کمزوری، کرپشن اور احتساب کے فقدان نے ترقی کو مفلوج کر دیا ہے۔ SeeQuran.com کے مطابق یہ مسئلہ صرف انتظامی نہیں بلکہ ایک روحانی بحران ہے، کیونکہ قرآن انصاف، امانت اور جواب دہی کو اجتماعی کامیابی کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ نتیجتاً، جب تک مسلم ممالک جواب دہ حکمرانی اور شفاف اداروں کو فروغ نہیں دیتے، امت کا زوال رکنا ممکن نہیں، اور ماضی کی عظمت دوبارہ پانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

  • مسلم دنیا کی قیادت اکثر ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر ترجیح دیتی ہے۔
  • الجزیرہ کی 2023ء کی رپورٹ میں واضح ہوا کہ کرپشن اور ناقص حکمرانی مسلم ممالک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
  • محاورہ: “مچھلی سر سے سڑتی ہے” – قیادت اگر درست نہ ہو تو پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔
۴۔ معاشی انحطاط

یہ حقیقت ہے کہ امتِ مسلمہ آج شدید معاشی زوال کا شکار ہے اور اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے International Monetary Fund (IMF) اور World Bank پر انحصار کرتی ہے۔ بیشتر مسلم ممالک کے پاس وافر قدرتی وسائل موجود ہونے کے باوجود، وسائل کے غلط استعمال، بدعنوانی، ناقص معاشی منصوبہ بندی، اور صنعتی ترقی کے فقدان نے انہیں خود کفالت سے محروم رکھا ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اپنی کتاب “Islamic Economics: An Analytical Study” میں لکھتے ہیں کہ مسلم دنیا نے معاشی خود مختاری کے لیے کوئی مضبوط ادارہ قائم نہیں کیا، جس کے باعث وہ قرضوں کے جال میں پھنسی رہتی ہے۔ OIC (Organization of Islamic Cooperation) جیسا پلیٹ فارم بھی اب تک کوئی مؤثر متبادل مالیاتی ادارہ قائم کرنے میں ناکام رہا ہے، حالانکہ مسلم ممالک کے پاس دنیا کے 70% تیل کے ذخائر اور 40% قدرتی گیس موجود ہے (BP Statistical Review, 2023)۔ یہ قیمتی وسائل اگر جدید ٹیکنالوجی، شفاف گورننس اور مشترکہ معاشی حکمتِ عملی کے تحت استعمال ہوں تو مسلم دنیا نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے بلکہ عالمی معیشت میں قیادت بھی کر سکتی ہے، مگر موجودہ حالات میں وہ معاشی طور پر دوسروں کی محتاج ہے۔

قدرتی وسائل کے باوجود مسلم ممالک عالمی معیشت میں کمزور ہیں۔

فنانشل ٹائمز اور عرب نیوز کی رپورٹس کے مطابق مسلم ممالک کی بیشتر معیشتیں درآمدات پر منحصر ہیں، برآمدات محدود ہیں۔

اقبال نے کہا تھا:”دولت بھی، حکومت بھی، جہاں بھی، کیا چیز ہے؟
.کافروں کے گیت گانا، یہ بھی اک بیماری ہے”

۵۔ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید اور دینی اقدار سے غفلت

امتِ مسلمہ کا زوال ایک بڑی حد تک مغربی معاشرتی، فکری اور ثقافتی تقلید کا نتیجہ ہے، جہاں جدیدیت کے نام پر اپنی تہذیبی شناخت اور اسلامی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ علامہ اقبال نے “Reconstruction of Religious Thought in Islam” میں واضح کیا کہ اندھی تقلید تخلیقی صلاحیت کو ختم کر دیتی ہے اور قوم کو فکری غلامی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ آج مسلم معاشرے تعلیمی، عدالتی، حتیٰ کہ ثقافتی شعبوں میں مغربی ماڈلز کو بلا تنقید اپناتے ہیں، جس سے نہ صرف ان کی دینی بنیادیں کمزور ہوئیں بلکہ سماجی انتشار اور اخلاقی زوال بھی بڑھا۔ UNESCO Cultural Diversity Report (2022) کے مطابق، مسلم نوجوانوں میں مغربی لائف اسٹائل اپنانے کا رجحان اپنی مقامی و دینی روایات سے بے رغبتی پیدا کر رہا ہے، جس کا نتیجہ شناخت کے بحران، خاندانی نظام کی کمزوری، اور سماجی ہم آہنگی کے خاتمے کی صورت میں نکل رہا ہے۔ اگر امتِ مسلمہ نے اپنی ترقی کا راستہ قرآن و سنت اور اپنی علمی وراثت کی روشنی میں متعین نہ کیا، تو یہ فکری غلامی اسے مزید پستی کی طرف دھکیلتی رہے گی۔

  • میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے مغربی طرزِ زندگی کا اثر بڑھ گیا ہے۔
  • روزنامہ ایکسپریس میں ایک مضمون (2024ء) میں لکھا گیا کہ مسلم نوجوان مغربی ثقافت کو ترقی کی کنجی سمجھتے ہیں، جبکہ اپنی تہذیب کو فراموش کر رہے ہیں۔
  • محاورہ: “چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے” – ہمیں اپنی اقدار پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔

شاعر فیض احمد فیض نے کہا:”ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے”

امتِ مسلمہ کے زوال کا علاج بھی انہی اسباب کے خاتمے میں ہے: تعلیم کو فروغ دینا، اتحاد پیدا کرنا، ایماندار قیادت لانا، معیشت کو خود کفیل بنانا اور اپنی تہذیبی شناخت کو بچانا۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو جیسا کہ اقبال نے کہا:

“افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ”

📍 English Language Educator | Blogger & Content Strategist | 7+ Years in Educational Blogging

Nosheen Bashir is a dedicated English teacher and experienced blogger with over seven years of expertise in content creation and educational writing. Passionate about language, literature, and effective communication, she combines her teaching experience with blogging skills to create insightful, research-backed content that helps learners and educators alike.

🔹 Expertise & Achievements:
✔ English Language Education: A skilled educator with years of experience in teaching English grammar, literature, and communication skills to students of varying levels.
✔ Educational Blogging: Running a successful blog for 7+ years, delivering well-structured, engaging content on language learning, writing techniques, and academic success.
✔ SEO & Content Strategy: Specializes in creating high-ranking, authoritative articles that follow Google’s EEAT principles, ensuring content that is both informative and search-friendly.
✔ Student-Centric Approach: Committed to making English easier, engaging, and accessible, helping readers and students improve their language proficiency.

🚀 With a passion for teaching and writing, Nosheen Bashir is dedicated to crafting educational content that empowers students, teachers, and language enthusiasts worldwide.

Share This Post:

Discussion

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *