دوست وہ ہوتا ہے جو مشکل وقت میں ڈھال بن جائے، اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر آپ کو بچانے کھڑا ہو جائے۔ یہی جذبہ میجر عدنان اسلم شہید کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو تھا۔ انہوں نے اپنی بہادری اور ایثار سے یہ ثابت کر دیا کہ حقیقی دوست وہ نہیں جو صرف خوشی کے لمحات میں ساتھ ہوں بلکہ وہ ہیں جو مصیبت کی گھڑی میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیں۔
آج کے دور میں جب مفادات اور خود غرضی نے تعلقات کو کمزور کر دیا ہے، میجر عدنان کی قربانی وفادار دوستی کی ایک زندہ مثال ہے۔ ان کی جدوجہد ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ رفاقت کا اصل معیار لفظوں یا وعدوں میں نہیں بلکہ عمل اور قربانی میں پوشیدہ ہے۔ یہ قول حضرت علیؓ کا ہو یا میجر عدنان کی قربانی کا لمحہ، دونوں ایک ہی حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ سچی دوستی وہ ہے جو نہ صرف خوشیوں بلکہ اندھیروں میں بھی ساتھ کھڑی رہے۔
پاکستان کی سرزمین ہمیشہ ان جوانوں پر فخر کرتی ہے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے وطن کو محفوظ بنایا، اور انہی میں ایک روشن نام میجر عدنان اسلم شہید کا ہے جن کی قربانی ایک داستان سے کم نہیں۔ ان کا سفر ایک عام نوجوان سے شروع ہوا جو اپنی محنت، لگن اور خوابوں کو ساتھ لے کر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول تک پہنچا۔ وہاں کی کڑی مشقت، نظم و ضبط اور عسکری تربیت نے انہیں کندن بنا دیا۔ یہی نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے انہوں نے برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ سے بھی تعلیم حاصل کی، جو دنیا کے بہترین اداروں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ تمام مراحل گویا ایک ایسے وقت کے لیے تیاری تھے جب ان کی بہادری تاریخ کا حصہ بننے والی تھی۔
یہ موقع 2 ستمبر 2025 کو خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں آیا جب ایک فوجی مرکز پر دہشتگردوں نے حملہ کیا۔ اس وقت میجر عدنان چھٹی پر تھے اور اپنے گھر جانا چاہتے تھے تاکہ اپنی چھ ماہ کی ننھی بیٹی کو پہلی بار گود میں لے سکیں۔ وہ اس کی پیدائش کے وقت ڈیوٹی پر تھے اور صرف ویڈیو کال اور تصویروں میں ہی اپنی بیٹی کو دیکھ پائے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ وہ راولپنڈی میں کچھ دن گھر والوں کے ساتھ گزاریں اور پھر اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ ایبٹ آباد میں وقت گزاریں۔ لیکن جب بنوں میں خطرہ پیدا ہوا تو انہوں نے بغیر ہچکچاہٹ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آپریشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ لمحہ دراصل اس بات کا اعلان تھا کہ ایک حقیقی سپاہی کے لیے وطن اور ساتھیوں کی حفاظت اپنی ذاتی خواہشات اور خوشیوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔
حملہ اچانک تھا مگر میجر عدنان اور ان کے ساتھی پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے دو دہشتگردوں کو مار گرایا، لیکن اسی دوران ایک گولی ان کی ٹانگ میں لگی۔ زخمی ہونے کے باوجود وہ رکے نہیں بلکہ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کا ساتھی خطرے میں ہے تو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اس کے سامنے ڈھال بن گئے۔ کبھی وہ ساتھی کو بچاتے اور کبھی ساتھی انہیں بچانے کی کوشش کرتا، مگر اصل بوجھ ہمیشہ میجر عدنان نے اٹھایا۔ ان کا بلند قد اور ایس ایس جی کمانڈو کی تربیت اس موقع پر ایک حقیقی طاقت بن گئی۔ یہ سب لمحے اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ صرف ایک سپاہی نہیں بلکہ ایک محافظ تھے جو اپنی زندگی کی قیمت پر بھی دوسرے کی جان بچانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
یوں وہ سات دن تک موت اور زندگی کے بیچ لڑتے رہے، مگر بالآخر زخموں کی تاب نہ لا سکے اور شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز ہو گئے۔ ان کی قربانی نہ صرف فوج بلکہ پوری قوم کے لیے ایک یادگار مثال ہے جو آنے والی نسلوں کو جرات، ایثار اور وطن سے محبت کا درس دیتی رہے گی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ قربانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حقیقی دوستی اور وفاداری وقت کی دھول میں مٹتی نہیں بلکہ انسان کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیتی ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ “جس نے ایک جان کو بچایا گویا اس نے تمام انسانیت کو بچایا” (سورۃ بنی اسرائیل)۔ میجر عدنان کی قربانی اسی آیت کی عملی تصویر ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی جان قربان کر کے ایک اور زندگی کو بچانے کی کوشش کی۔ یہ شہادت دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ بہادری صرف میدانِ جنگ میں دشمن کو مارنے کا نام نہیں بلکہ اپنے ساتھی کے لیے ڈھال بن جانے کا جذبہ ہی اصل عظمت ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ واقعہ ایک ایسا لمحہ ہے جسے پورا پاکستان بھول نہیں پایا۔ ایک جواں سال افسر کا یوں شہید ہونا صرف ایک زندگی کا نقصان نہیں بلکہ ایک بیوی کا سہارا، ایک بیٹے کا مستقبل اور ایک بیٹی کا خواب چھن جانا ہے۔ یہ دکھ صرف ایک خاندان کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے، کیونکہ جب ایک سپاہی قربان ہوتا ہے تو دراصل ایک نسل کے خواب بھی قربان ہو جاتے ہیں۔ ایسے واقعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ آزادی اور امن کی قیمت ہمیشہ قربانی میں ادا کی جاتی ہے، اور وہ قربانی ناقابلِ فراموش ہوتی ہے۔
📍 English Language Educator | Blogger & Content Strategist | 7+ Years in Educational Blogging
Nosheen Bashir is a dedicated English teacher and experienced blogger with over seven years of expertise in content creation and educational writing. Passionate about language, literature, and effective communication, she combines her teaching experience with blogging skills to create insightful, research-backed content that helps learners and educators alike.
🔹 Expertise & Achievements:
✔ English Language Education: A skilled educator with years of experience in teaching English grammar, literature, and communication skills to students of varying levels.
✔ Educational Blogging: Running a successful blog for 7+ years, delivering well-structured, engaging content on language learning, writing techniques, and academic success.
✔ SEO & Content Strategy: Specializes in creating high-ranking, authoritative articles that follow Google’s EEAT principles, ensuring content that is both informative and search-friendly.
✔ Student-Centric Approach: Committed to making English easier, engaging, and accessible, helping readers and students improve their language proficiency.
🚀 With a passion for teaching and writing, Nosheen Bashir is dedicated to crafting educational content that empowers students, teachers, and language enthusiasts worldwide.