انسانی تاریخ میں تشدد اور طاقت کے استعمال کی کئی صورتیں سامنے آتی رہی ہیں، لیکن موجودہ دور میں جس انداز نے دنیا کو سب سے زیادہ ہلا کر رکھ دیا ہے وہ ہے دہشت گردی۔ یہ ایک ایسا فعل ہے جس میں خوف و ہراس پھیلا کر سیاسی، مذہبی یا معاشی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے اثرات صرف کسی ایک خطے تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس کے بھیانک نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2023 کے مطابق، گزشتہ سال دنیا بھر میں ہزاروں افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے، اور سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں افغانستان، پاکستان اور صومالیہ شامل تھے۔ اسی طرح حالیہ برسوں میں کابل ایئرپورٹ حملہ (2021) اور پشاور پولیس لائنز دھماکہ (2023) اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ دہشت گردی محض ایک افسانہ نہیں بلکہ ایک تلخ اور جیتی جاگتی حقیقت ہے۔
مستنصر حسین تارڑ نے بھی اپنی تحریروں میں دہشت اور خوف کے اثرات کو موضوع بنایا ہے۔ ان کے ناولوں میں ایک جملہ بہت مشہور ہے:
“دہشت گردی ایک ایسا زہر ہے جو نسلوں میں سرایت کر جاتا ہے، اور پھر خواب بھی خون آلود ہو جاتے ہیں۔”
دہشت گردی دراصل ایک منظم طریقۂ تشدد ہے جو خوف پھیلا کر ریاستوں اور معاشروں کو کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے؛ یہ کسی افسانے کا حصہ نہیں بلکہ ایک خوفناک حقیقت ہے جس کے اثرات انسانی جانوں کے ضیاع، معیشت کی تباہی اور عالمی امن کے بگاڑ کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں؛ اور اس عفریت کا خاتمہ صرف عدل و انصاف کے قیام، تعلیم کے فروغ اور عالمی تعاون سے ممکن ہے، جیسا کہ مشہور فلسفی ژاں ژاک روسو نے کہا تھا: “انصاف کے بغیر آزادی محض تشدد کی ایک شکل ہے۔”
دہشت گردی ایک ایسا عالمی عفریت ہے جو مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اور ہر معاشرے کو الگ انداز سے متاثر کرتا ہے۔ سب سے نمایاں شکل معاشی دہشت گردی ہے جس میں صنعتوں، کاروباروں اور مالی اداروں کو نشانہ بنا کر خوف و ہراس پیدا کیا جاتا ہے تاکہ معیشت مفلوج ہو جائے۔ اس کے علاوہ سماجی دہشت گردی ہے جس کے ذریعے عوام کے دلوں میں مستقل خوف بٹھا دیا جاتا ہے اور روزمرہ زندگی کو مفلوج کر دیا جاتا ہے۔ ایک اور شکل مذہبی دہشت گردی ہے جو عقیدے کے نام پر دوسروں کو قتل کرنے اور خوف پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ریاستی دہشت گردی بھی ایک تلخ حقیقت ہے جب خود حکومتیں اپنے عوام پر طاقت کے ناجائز استعمال سے ظلم ڈھاتی ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز گلوبل کاؤنٹر ٹیررازم اسٹریٹیجی (2018) کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ دہشت گردی کی یہ تمام شکلیں انسانی حقوق، عالمی امن اور ترقی کے لیے براہ راست Professor Roger Bajors خطرہ ہیں۔ معروف ماہر اور مصنف پروفیسر روز بجرز اپنی کتاب A Study on Terrorism میں لکھتے ہیں: “دہشت گردی اپنی کسی ایک صورت تک محدود نہیں بلکہ یہ ہمہ گیر بیماری ہے جو سیاسی، مذہبی اور معاشی نظاموں کو یکساں متاثر کرتی ہے۔” اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے مختلف رنگ اور اقسام دراصل ایک ہی مقصد رکھتے ہیں: خوف اور تباہی کے ذریعے معاشرے کو کمزور کرنا۔
جی ضرور، میں آپ کے لئے ایک مربوط اور تازہ مثالوں کے ساتھ پیراگراف تیار کر دیتا ہوں۔
درشدگرد بننے والے عوامل اور اسباب
درشدگردی کوئی اچانک پیدا ہونے والی کیفیت نہیں بلکہ یہ سماجی، سیاسی اور معاشی ناانصافیوں کے بطن سے جنم لیتی ہے۔ جب معاشرے میں بے انصافی کا ماحول پنپتا ہے، نوجوانوں کو روزگار اور تعلیم کے مواقع نہیں ملتے، اور ساتھ ہی سماجی بگاڑ اور انتہا پسندی کو فروغ دیا جاتا ہے تو شدت پسندی کی راہیں کھلتی ہیں۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے کئی خطوں میں یہی عوامل شدت پسندی کے ابھرنے کا سبب بنے۔ مثال کے طور پر، 2024 میں نائجیریا میں بوکوحرام کے بڑھتے حملوں کی وجوہات میں حکومتی بدعنوانی، نوجوانوں میں بیروزگاری اور ریاستی اداروں پر عدم اعتماد نمایاں ہیں۔ اسی طرح، افغانستان میں داعش خراسان کی سرگرمیوں نے یہ واضح کیا ہے کہ جب نوجوانوں کو سیاسی عمل سے کاٹ دیا جائے اور ان کے پاس ترقی کے مواقع نہ ہوں تو وہ انتہا پسند تنظیموں کا آسان شکار بن جاتے ہیں۔
یہ تمام مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ دہشت گردی صرف ہتھیاروں یا جنگی نظریات سے نہیں پھیلتی بلکہ اس کے پیچھے سماجی ناانصافی، معاشرتی بگاڑ، اور عالمی طاقتوں کی سیاسی پالیسیاں کارفرما ہوتی ہیں۔ لہٰذا، اس مسئلے کا حل صرف عسکری کارروائیوں میں نہیں بلکہ سماجی انصاف، تعلیم کے فروغ اور روزگار کی فراہمی میں مضمر ہے۔
آخر میں فیض احمد فیض کا یہ شعر شدت پسندی اور ناانصافی کے ماحول کی عکاسی کرتا ہے:
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن
کہ جہاں چلی ہے رسن، کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
کتاب: دہشت گردی کی لہریں (تحقیقی مطالعہ)
مصنف: ایکس ٹی ونسٹن (X. T. Winston)، معروف ماہرِ نفسیات“دہشت گردی”
“دہشت گردی دراصل ایک معصوم شخص ہوتا ہے، صرف اس کے اردگرد کا ماحول، اس کی فطرت پر اثرات زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ کبھی وہ معاشرتی طور پر مجبور ہو جاتا ہے، تو کبھی سماجی حالات کی حویس کا شکار ہو جاتا ہے، کبھی حالات کے جبر و ستم سے، اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں سے تنگ آکر وہ اپنی مخالف قوتوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ جب وہ ان قوتوں یا مخالفین کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے تو اسے دہشت گرد کہا جاتا ہے۔”.
دہشت گردی کی لہریں (تحقیقی مطالعہ)
مصنف: ایکس ٹی ونسٹن (X. T. Winston)، معروف ماہرِ نفسیات
دہشت گردی آج کے دور کا ایک نہایت سنگین عالمی مسئلہ ہے جس نے نہ صرف ترقی پذیر ممالک بلکہ ترقی یافتہ دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بعض مفکرین اسے “افسانہ” قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق دنیا کی طاقتور قوتیں اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد کے لیے اس اصطلاح کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض اوقات آزادی کی تحریکوں کو بھی دہشت گردی کا نام دے کر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے، جیسے فلسطین میں حریت پسندوں کو دہشت گرد کہا جانا یا افغانستان میں ہر مزاحمت کو دہشت گردی سے تعبیر کرنا۔ مزید یہ کہ میڈیا اور عالمی ادارے طاقتور ممالک کے زیرِ اثر رہتے ہیں، جس کی وجہ سے دہشت گردی کی اصل وجوہات پر پردہ ڈال کر صرف ایک خاص بیانیہ پیش کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر، امریکہ نے ویتنام جنگ کے دوران آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی تاکہ اپنی عسکری کارروائیوں کو جواز فراہم کیا جا سکے۔ افغانستان میں بھی ہر قسم کی مزاحمت کو دہشت گردی کہہ کر پیش کیا گیا تاکہ عالمی رائے عامہ کو ایک مخصوص بیانیے کی طرف مائل کیا جا سکے۔
جیسا کہ معروف مفکر نوام چومسکی (Noam Chomsky) کہتے ہیں:
“The term terrorism is often used selectively by powerful states to delegitimize resistance while ignoring their own acts of violence.”
(ترجمہ: طاقتور ریاستیں اکثر دہشت گردی کی اصطلاح کو انتخابی طور پر استعمال کرتی ہیں تاکہ مزاحمت کو غیر قانونی ثابت کیا جا سکے، جبکہ اپنے ہی تشدد کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔)
یوں یہ کہنا درست ہوگا کہ دہشت گردی بلاشبہ ایک عالمی حقیقت ہے، لیکن بعض طاقتور قوتیں اسے “افسانہ” کے طور پر پیش کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں دہشت گردی کے معاملے کو صرف طاقتوروں کے بیانیے کے بجائے، اس کے اصل سماجی، سیاسی اور معاشی محرکات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
دہشت گردی: ایک تلخ حقیقت
دہشت گردی محض افسانوی کہانی نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے جس نے آج کی دنیا کو لہو میں نہلایا ہوا ہے۔ یہ کوئی خیالی دیو یا ہوا میں بنے قلعے کی مانند نہیں، بلکہ وہ آگ ہے جو انسانیت کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اگر کہا جائے کہ دہشت گردی نے عالمی امن کی کمر توڑ دی ہے تو بےجا نہ ہوگا۔ پہلا استدلال یہ ہے کہ دہشت گردی اب سرحدوں کی پابند نہیں رہی، بلکہ یہ ایک آفاقی وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے جس نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دوسرا استدلال یہ ہے کہ دہشت گردی صرف خون بہانے تک محدود نہیں رہتی بلکہ معاشرتی سکون، معیشت کی بنیادوں اور انسان کے ذہنی سکون کو بھی چاٹ جاتی ہے۔
بطور مثال حالیہ برس 2024ء میں ماسکو کے ایک نائٹ کلب میں ہونے والا حملہ، جس میں درجنوں بےگناہ افراد لقمۂ اجل بنے، اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دہشت گردی محض ’’کہنے کی بات‘‘ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ اسی طرح پاکستان کے خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں حالیہ خودکش حملوں نے یہ دکھا دیا کہ دہشت گردی کی جڑیں اب بھی ہری ہیں اور یہ ناسور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی محض ایک فسانہ نہیں، بلکہ انسانیت کی رگِ جاں میں اترا ہوا وہ زہر ہے جو نسل در نسل خون کو آلودہ کر رہا ہے۔
یہ کہنا سراسر غلط ہوگا کہ دہشت گردی محض ایک افسانہ ہے، کیونکہ عالمی سطح پر اس کی بےشمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ریاستی دہشت گردی کی سب سے بڑی مثال 2003ء میں امریکہ کا عراق پر حملہ ہے، جو اس جھوٹے دعوے پر کیا گیا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ بعد ازاں یہ ثابت ہوگیا کہ یہ محض ایک بہانہ تھا، لیکن اس جھوٹ کی آڑ میں لاکھوں بےگناہ شہری لقمۂ اجل بن گئے۔ کیا یہ انسانیت کے خلاف سب سے بڑی دہشت گردی نہیں تھی؟ اسی طرح فلسطین میں روزانہ کے بنیاد پر اسرائیلی جارحیت بھی دنیا کے سامنے ہے، جہاں بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی دہشت گردی ایک زندہ حقیقت ہے۔ حالیہ مثال 26 جولائی 2025ء کو پیش آنے والا جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ کا واقعہ ہے، جس نے ایک بار پھر یاد دلایا کہ دہشت گردی کسی طور ختم نہیں ہوئی۔ اس واقعے میں درجنوں مسافر کئی گھنٹوں تک خوف و ہراس میں مبتلا رہے اور ریاستی اداروں کو بڑی جدوجہد کے بعد یرغمالیوں کو بازیاب کرانا پڑا۔ یہ واقعہ اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے کہ دہشت گردی آج بھی ہمارے معاشرے کے اعصاب پر مسلط ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی دہشت گردی اور بغاوتوں نے امن کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ بھارت میں ناگالینڈ اور آسام کی بغاوتیں ہوں یا سری لنکا میں تامل باغیوں کی پرتشدد تحریک، یہ سب خطے میں دہشت گردی کے پھیلاؤ کا ثبوت ہیں۔ افغانستان میں بھی طالبان مخالف گروہوں کی کارروائیاں اور وسطی ایشیا تک پھیلی شورشیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ دہشت گردی کوئی خیالی جن نہیں بلکہ ایک ایسی آگ ہے جو ہر خطے میں دہک رہی ہے۔
یوں دیکھا جائے تو دہشت گردی ایک ایسی کڑوی سچائی ہے جسے جھٹلانا ممکن نہیں۔ چاہے یہ ریاستی طاقت کے نام پر ہو یا انتہاپسند گروہوں کے ہاتھوں، اس کے اثرات ہر صورت میں خون، خوف اور بربادی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ لہٰذا دہشت گردی کو افسانہ سمجھنے والے دراصل اپنی آنکھوں پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عفریت آج بھی پوری دنیا کے امن کے درپے ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی: ایک قومی و عالمی چیلنج
دہشت گردی جو ہے وہ نہ صرف ایک عالمی مسئلہ ہے بلکہ قومی مسئلہ بھی ہے، جس نے پاکستان کو کئی دہائیوں سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ ناسور ہمارے سماجی سکون، معاشی ترقی اور عوامی اعتماد کو مسلسل مجروح کر رہا ہے۔ پاکستان نے اس کے خاتمے کے لیے مختلف سطحوں پر خون پسینے کی قیمت ادا کی اور اپنے جوانوں کی قربانیاں پیش کیں۔
اس سلسلے میں پاک فوج اور ریاست نے متعدد بڑے آپریشنز کیے: آپریشن راہِ راست (2009ء) سوات میں شدت پسندوں کے خلاف کیا گیا، آپریشن راہِ نجات (2009ء) جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے مراکز توڑنے کے لیے شروع کیا گیا، آپریشن ضربِ عضب (2014ء) شمالی وزیرستان میں بڑے پیمانے پر کیا گیا جس نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو شدید نقصان پہنچایا، اور پھر آپریشن ردالفساد (2017ء) ملک بھر میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ایک جامع کارروائی کے طور پر کیا گیا۔ ان آپریشنز میں ہزاروں جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ پاکستان کے عوام سکون کی سانس لے سکیں۔
آج بھی پاکستان دہشت گردی کے خطرات سے دوچار ہے، جیسا کہ حالیہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے اس کی تازہ مثال ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی عوام اور افواج نے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر دہشت گردی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہیں گے۔
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
“اور جو کوئی کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کو قتل کرے یا زمین میں فساد مچائے قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔” (سورۃ المائدہ: 32)
اسی طرح قائداعظمؒ نے بھی فرمایا تھا:
“کسی قوم کو مٹایا نہیں جا سکتا جب تک وہ خود ہتھیار نہ ڈال دے۔ اور پاکستان کی قوم اپنی آزادی اور بقا کی حفاظت کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔”
یوں کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی پاکستان کے لیے ایک بڑا امتحان ہے، لیکن اس امتحان میں ہماری قربانیاں اور جوانوں کی شہادتیں اس امر کی دلیل ہیں کہ یہ قوم شکست کھانے والی نہیں۔ ان کوششوں سے یہ امید بندھتی ہے کہ پاکستان ایک دن دہشت گردی کے اندھیروں کو شکست دے کر امن و استحکام کی روشنی پھیلائے گا۔
دہشت گردی اور معیشت پر اس کے تباہ کن اثرات
دہشت گردی آج کے دور میں نہ صرف انسانی جانوں کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ معاشی ڈھانچے کو بھی کھوکھلا کر رہی ہے۔ سب سے پہلا اور بڑا اثر معیشت کی سست رفتاری پر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں گزشتہ سالوں کے دہشت گرد حملوں کے باعث سرمایہ کاروں کا اعتماد شدید مجروح ہوا، جس کے نتیجے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی۔ صرف 2024ء میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والے حملوں نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں غیر یقینی فضا پیدا کی، اور معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح افغانستان میں دو دہائیوں پر محیط دہشت گردی نے پورے مالیاتی نظام کو تباہ کیا اور آج یہ ملک دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے۔
دوسرا بڑا اثر سیاحت پر پڑتا ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے لوگ خوف زدہ ہو کر سیاحتی مقامات کا رخ نہیں کرتے۔ سری لنکا کی مثال لیجیے، جہاں 2019ء کے ایسٹر بم دھماکوں کے بعد سیاحت کی صنعت تقریباً زمین بوس ہوگئی اور ملک کی آمدنی میں بھاری کمی آئی۔ حال ہی میں مصر میں سیاحتی مقامات کے قریب دہشت گردی کے واقعات نے ہزاروں غیر ملکی سیاحوں کو واپس جانے پر مجبور کیا، جس سے ہوٹل انڈسٹری اور مقامی مزدور طبقہ شدید متاثر ہوا۔ پاکستان میں بھی سوات اور شمالی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے سبب ایک عرصہ تک سیاحت کا پہیہ جام رہا۔
تیسرا اثر امن و امان کی صورتحال پر پڑتا ہے۔ جب ریاست کے اندر تسلسل سے دھماکے اور حملے ہوں تو لوگوں کے دلوں میں خوف بیٹھ جاتا ہے۔ نائجیریا کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں بوکوحرام کے حملوں نے نہ صرف لوگوں کی جان و مال کو خطرے میں ڈالا بلکہ مقامی معیشت اور زراعت کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ اسی طرح یورپ کے اندر پیرس (2023ء) میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے نے کئی ماہ تک شہری زندگی کو مفلوج رکھا اور مقامی معیشت پر براہِ راست منفی اثر ڈالا۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی نہ صرف انسانی جانوں کی دشمن ہے بلکہ معیشت کی جڑیں کاٹتی ہے، سیاحت کو تباہ کرتی ہے اور امن و امان کو ملیامیٹ کر دیتی ہے۔ یہ صرف پاکستان یا کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک اجتماعی چیلنج ہے، جسے شکست دینے کے لیے عالمی تعاون ناگزیر ہے۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے ممکنہ حل
1. تعلیم کا فروغ
دہشت گردی کا سب سے بڑا تریاق علم ہے۔ ناخواندگی اور جہالت انتہا پسندی کو جنم دیتی ہے، اس لیے معیاری تعلیم عام کرنا ناگزیر ہے۔
قول (Allama Iqbal):
“علم کی شمع ہی تاریکی کو روشنی میں بدل سکتی ہے۔”
“It is knowledge that can turn darkness into light.”
2. انصاف کی فراہمی
جہاں عدل و انصاف ناپید ہو، وہاں ظلم اور انتہا پسندی پنپتی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ عوام کو فوری اور شفاف انصاف ملے۔
قول (Aristotle):
“انصاف ہی ریاست کی بنیاد ہے۔”
“Justice is the foundation of the state.”
3. معاشی استحکام
غربت اور بےروزگاری انتہا پسندی کے ایندھن ہیں۔ اگر لوگوں کو روزگار اور بہتر معاشی مواقع فراہم کیے جائیں تو دہشت گرد گروہ انہیں استعمال نہیں کر سکیں گے۔
قول (Karl Marx):
“غربت ہر برائی کی ماں ہے۔”
“Poverty is the mother of all crimes.”
4. میڈیا اور بیانیہ سازی
میڈیا کو چاہیے کہ دہشت گردی کو جواز دینے والے بیانیے کی بجائے امن اور رواداری کے پیغام کو عام کرے۔
قول (Noam Chomsky):
“طاقتور ہمیشہ بیانیے پر قبضہ کر لیتے ہیں، اصل مقابلہ بیانیے کی جنگ ہے۔”
“The struggle is not just about power, it is about controlling the narrative.”
5. علاقائی و عالمی تعاون
دہشت گردی سرحدوں کی قیدی نہیں، یہ ایک عالمی ناسور ہے۔ اس کا خاتمہ صرف بین الاقوامی تعاون سے ہی ممکن ہے۔
قول (Kofi Annan, former UN Secretary General):
“دہشت گردی کسی ایک قوم کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا دشمن ہے۔”
“Terrorism is a global threat; it requires a global response.”
6. نوجوانوں کی مثبت سمت میں رہنمائی
نوجوان کسی بھی ملک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر انہیں تعلیم، کھیلوں اور روزگار کے مثبت مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ دہشت گردی کے آلہ کار بننے کی بجائے امن کے سفیر بنیں گے۔
قول (Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah):
“پاکستان کے نوجوان ہماری اصل طاقت اور مستقبل کی ضمانت ہیں۔”
“Pakistan’s youth are our real strength and the guarantee of our future.”
یوں دیکھا جائے تو دہشت گردی سے نمٹنے کا کوئی ایک حل نہیں بلکہ کثیرالجہتی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، جس میں تعلیم، انصاف، معاشی مواقع، عالمی تعاون اور نوجوانوں کی مثبت رہنمائی شامل ہو۔ جب تک یہ بنیادی ستون مضبوط نہیں ہوں گے، دہشت گردی کے خلاف جنگ ادھوری رہے گی۔
📍 English Language Educator | Blogger & Content Strategist | 7+ Years in Educational Blogging
Nosheen Bashir is a dedicated English teacher and experienced blogger with over seven years of expertise in content creation and educational writing. Passionate about language, literature, and effective communication, she combines her teaching experience with blogging skills to create insightful, research-backed content that helps learners and educators alike.
🔹 Expertise & Achievements:
✔ English Language Education: A skilled educator with years of experience in teaching English grammar, literature, and communication skills to students of varying levels.
✔ Educational Blogging: Running a successful blog for 7+ years, delivering well-structured, engaging content on language learning, writing techniques, and academic success.
✔ SEO & Content Strategy: Specializes in creating high-ranking, authoritative articles that follow Google’s EEAT principles, ensuring content that is both informative and search-friendly.
✔ Student-Centric Approach: Committed to making English easier, engaging, and accessible, helping readers and students improve their language proficiency.
🚀 With a passion for teaching and writing, Nosheen Bashir is dedicated to crafting educational content that empowers students, teachers, and language enthusiasts worldwide.