سیلاب دنیا بھر میں ایک قدرتی آفت ہے لیکن کئی ممالک نے منصوبہ بندی اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کے نقصانات کو بہت حد تک کم کیا ہے۔ یہ مثالیں پاکستان کے لیے سبق رکھتی ہیں۔
امریکہ میں، خاص طور پر ریاست لوزیانا کے شہر نیو اورلینز میں، 2005 کے سمندری طوفان کترینا کے بعد مضبوط سیلابی دیواریں، جدید پمپنگ سسٹمز اور حفاظتی ڈھانچے تعمیر کیے گئے تاکہ پانی کو فوری نکالا جا سکے۔ کیلیفورنیا میں ریڈار سسٹمز اور جدید موسمی پیش گوئی کے آلات نصب ہیں جو بارش اور طغیانی کی وارننگ کئی گھنٹے پہلے دے دیتے ہیں، اور شہریوں کو بروقت اطلاع دے کر محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔
نیدرلینڈز دنیا کی سب سے نمایاں مثال ہے جہاں زمین کا ایک بڑا حصہ سمندر سے نیچے ہے۔ وہاں “روم فار دی ریور” پالیسی کے تحت دریاؤں کو اضافی زمین دی گئی تاکہ پانی قدرتی راستے سے گزر سکے۔ اس کے ساتھ بند، گیٹ اور رکاوٹی ڈھانچے لگائے گئے ہیں جو شہری علاقوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں صدیوں سے بڑے بڑے سیلاب آنے کے باوجود انفراسٹرکچر کو بڑی تباہی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
جاپان نے بھی اپنی سائنسی مہارت کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے۔ وہاں زیرِ زمین بڑے بڑے سیلابی سرنگیں اور کثیرالمقاصد ڈیم تعمیر ہیں جو پانی کو ذخیرہ کرتے ہیں اور شہروں کو ڈوبنے سے بچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جدید سینسرز اور عوامی الرٹ ایپس لوگوں کو فوری اطلاع دیتے ہیں کہ وہ کس وقت محفوظ مقامات پر منتقل ہوں۔
پاکستان میں صورتِ حال مختلف ہے۔ یہاں ہر سال مون سون کے دوران دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیاں طغیانی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ 2022 میں آنے والے سیلاب میں تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور کھربوں روپے کا نقصان ہوا۔ 2025 میں بھی خطرہ بڑھ رہا ہے کیونکہ آبادی دریا کنارے بڑھ رہی ہے، ڈیمز کی صلاحیت کم ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے بارشیں غیر معمولی ہو چکی ہیں۔
اسی لیے پہلا قدم ایمرجنسی وارننگ سسٹمز کی تنصیب ہونا چاہیے۔ یہ سیٹلائٹ پیش گوئی اور ڈوپلر ریڈار کے ذریعے ممکن ہے جو بارش اور دریا کی سطح کی نگرانی کریں۔ لوگوں کو ایس ایم ایس الرٹس اور موبائل ایپس کے ذریعے اطلاع دی جائے اور کمیونٹی سطح پر تربیت یافتہ رضاکار بروقت انخلا یقینی بنائیں۔
اس کے بعد انفراسٹرکچر بہتر بنانا ضروری ہے۔ شہروں میں بارش کے پانی کی نکاسی کے نظام لگائے جائیں تاکہ پانی سڑکوں پر کھڑا نہ ہو۔ دریاؤں کے کنارے پشتے اور بند مضبوط کیے جائیں۔ سرکاری اسکولوں اور عمارتوں کو ایمرجنسی پناہ گاہوں کے طور پر تیار کیا جائے تاکہ لوگ محفوظ رہ سکیں۔
چھوٹے ڈیمز بھی اس مسئلے کا ایک حل ہیں۔ یہ ڈیم بارش کے پانی کو ذخیرہ کرتے ہیں، زیرِ زمین پانی کی سطح کو بہتر بناتے ہیں اور زرعی زمین کے لیے سہولت پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں ایسے چھوٹے ڈیم ممکن ہیں جو سیلابی پانی کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
درختوں کی شجرکاری بھی نہایت اہم ہے۔ درخت زمین کو کٹاؤ سے محفوظ کرتے ہیں اور دریا کے کناروں پر قدرتی رکاوٹ بنتے ہیں۔ سندھ کے ساحلی علاقوں میں مینگروو کے جنگلات دوبارہ لگانے سے سمندری طوفان اور سیلاب کے دباؤ کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو پیشگی اقدامات کرنے ہوں گے۔ خطرناک علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات ختم کی جائیں۔ سیلابی نقشے تیار کیے جائیں تاکہ آبادیاں محفوظ مقامات پر منتقل ہوں۔ کسانوں کو فصلوں کی انشورنس فراہم کی جائے تاکہ نقصان کے بعد انہیں سہارا مل سکے۔
یوں دیکھا جائے تو امریکہ، نیدرلینڈز اور جاپان جیسے ممالک نے سائنس اور منصوبہ بندی کے ذریعے سیلاب پر کافی حد تک قابو پایا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہی وقت ہے کہ وہ جدید وارننگ سسٹمز، چھوٹے ڈیمز، شجرکاری اور بہتر نکاسی کے منصوبوں کے ذریعے اپنی آبادی اور معیشت کو بچائے۔ اگر یہ اقدامات ابھی سے شروع ہو جائیں تو آنے والے برسوں میں سیلاب کی تباہ کاریاں نمایاں طور پر کم کی جا سکتی ہیں۔
📍 English Language Educator | Blogger & Content Strategist | 7+ Years in Educational Blogging
Nosheen Bashir is a dedicated English teacher and experienced blogger with over seven years of expertise in content creation and educational writing. Passionate about language, literature, and effective communication, she combines her teaching experience with blogging skills to create insightful, research-backed content that helps learners and educators alike.
🔹 Expertise & Achievements:
✔ English Language Education: A skilled educator with years of experience in teaching English grammar, literature, and communication skills to students of varying levels.
✔ Educational Blogging: Running a successful blog for 7+ years, delivering well-structured, engaging content on language learning, writing techniques, and academic success.
✔ SEO & Content Strategy: Specializes in creating high-ranking, authoritative articles that follow Google’s EEAT principles, ensuring content that is both informative and search-friendly.
✔ Student-Centric Approach: Committed to making English easier, engaging, and accessible, helping readers and students improve their language proficiency.
🚀 With a passion for teaching and writing, Nosheen Bashir is dedicated to crafting educational content that empowers students, teachers, and language enthusiasts worldwide.