پانی کو ہمیشہ سے زندگی کی علامت سمجھا گیا ہے۔ انسانی جسم سے لے کر کھیتوں کی پیداوار تک، صنعتی ترقی سے لے کر گھریلو استعمال تک، ہر مرحلے پر پانی ناگزیر ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: “اور ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا”۔ یہ آیت پانی کی اہمیت کو نہ صرف مذہبی حوالے سے اجاگر کرتی ہے بلکہ انسانی شعور کو بھی جھنجھوڑتی ہے۔ پنجاب جو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اپنی زرخیز زمینوں، نہری نظام اور گندم و چاول کی پیداوار کی وجہ سے ملک کے لیے غذائی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ یہی خطہ آج پانی کی کمی کے سنگین بحران میں مبتلا ہے۔ عالمی ادارہ برائے ترقی (UNDP) کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1951 میں 5000 مکعب میٹر تھی جو کم ہو کر آج محض 900 مکعب میٹر رہ گئی ہے۔ یہ شرح اقوامِ متحدہ کے طے کردہ معیار کے مطابق “واٹر اسکیئر کنٹری” کی واضح نشاندہی کرتی ہے۔ پنجاب میں یہ کمی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہاں کی معیشت براہ راست زراعت سے جڑی ہوئی ہے۔
پنجاب کی سرزمین ہمیشہ سے دریاؤں اور نہروں کے وسیع جال کی وجہ سے زرخیز رہی ہے۔ لیکن نہری نظام جو انگریز دور میں قائم کیا گیا تھا، آج اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ اندازہ ہے کہ نہروں میں بہنے والا تیس سے چالیس فیصد پانی رساؤ اور غیر قانونی نکاسی کے باعث ضائع ہو جاتا ہے۔ کسان مجبور ہیں کہ وہ زیرِ زمین پانی کے کنویں کھود کر اپنی ضرورت پوری کریں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پانی کی سطح ہر سال تین سے چار فٹ نیچے جا رہی ہے۔ لاہور، فیصل آباد اور ملتان جیسے بڑے شہروں میں پانی کی گہرائی سو سے ڈھائی سو فٹ تک جا پہنچی ہے۔ یہ صرف زراعت ہی کو متاثر نہیں کر رہا بلکہ پینے کے پانی کے معیار کو بھی زہر آلود بنا رہا ہے۔ نمکیات اور زہریلے کیمیکلز کی ملاوٹ نے انسانی صحت کو براہِ راست خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اس بحران کی ایک بڑی وجہ آبادی کا بے تحاشہ دباؤ ہے۔ پنجاب کی آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے اور خوراک کی ضروریات بڑھنے کے ساتھ پانی کے استعمال میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ چاول اور گنا جیسی فصلیں جو سب سے زیادہ پانی لیتی ہیں، پنجاب میں بڑے پیمانے پر کاشت کی جاتی ہیں۔ ایک ایکڑ چاول اگانے کے لیے تقریباً پچاس لاکھ لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے اور دریاؤں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یہ غیر متوازن زرعی حکمت عملی دراصل مستقبل کے آبی بحران کی بنیاد ڈال رہی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی بھی پنجاب کے پانی کے بحران کو شدید کر رہی ہے۔ عالمی موسمیاتی ادارہ (IPCC) کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے خطے میں بارشوں کے پیٹرن میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ کبھی سیلاب تو کبھی خشک سالی، یہ غیر متوازن صورتحال پنجاب میں پانی کی دستیابی کو غیر یقینی بنا چکی ہے۔ برفانی گلیشیئرز کے غیر متوقع پگھلاؤ سے وقتی طور پر پانی کی بہتات ہو جاتی ہے لیکن یہ وقتی ریلیف مستقبل میں دریاؤں کے بہاؤ میں مستقل کمی کا سبب بنے گا۔ یہ تبدیلیاں نہ صرف کسانوں کو متاثر کر رہی ہیں بلکہ دیہی اور شہری دونوں آبادیوں کو پینے کے صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور حساس پہلو بھارت کے ساتھ آبی تعلقات ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت پاکستان کو تین دریاؤں کا پانی ملنا تھا لیکن بھارت نے کئی ڈیم اور بیراج تعمیر کر کے پانی کے بہاؤ کو متاثر کیا ہے۔ دریائے چناب اور جہلم پر بنائے گئے منصوبوں نے پنجاب کے کسانوں کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ عالمی بینک نے بارہا اس معاہدے کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن کوئی ٹھوس حل تاحال سامنے نہیں آیا۔ پاکستان کو اپنے حصے کے پانی کی حفاظت کے لیے سفارتی سطح پر مزید فعال کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ پنجاب کے کھیت سوکھنے نہ پائیں۔
پانی کی کمی کے اثرات انتہائی وسیع ہیں۔ سب سے پہلے یہ زرعی پیداوار کو متاثر کرتا ہے جس سے غذائی عدم تحفظ بڑھتا ہے۔ پنجاب میں گندم اور چاول کی پیداوار میں کمی براہِ راست عوام کی خوراک پر اثر ڈالتی ہے۔ دیہی معیشت کمزور ہو رہی ہے، کسان قرضوں کے بوجھ تلے دب رہے ہیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف شہروں میں پینے کے پانی کی قلت ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ واٹر اینڈ سینیٹیشن ایجنسی (WASA) کے مطابق لاہور کی آبادی کا ایک بڑا حصہ آج بھی صاف پینے کے پانی سے محروم ہے۔ صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں، ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس اور اسہال جیسی بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ دراصل اس بات کی گواہی ہے کہ پانی کی کمی صرف زرعی یا ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی اور انسانی بحران ہے۔
اس مسئلے کا حل کسی ایک اقدام میں پوشیدہ نہیں بلکہ جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دینا ہوگی۔ بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم جیسے منصوبے اگر وقت پر مکمل ہو جائیں تو پانی کے ذخائر میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم پر سیاسی تنازعات نے قیمتی وقت ضائع کیا ہے، لیکن اب اس بحث کو قومی مفاد کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نہری نظام کی مرمت اور جدیدیت بھی ناگزیر ہے تاکہ ضائع ہونے والے پانی کو بچایا جا سکے۔
زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی اپنانا وقت کی ضرورت ہے۔ ڈرپ ایریگیشن اور اسپرنکلر سسٹم کے ذریعے پانی کی بچت کے ساتھ پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے۔ اسرائیل اور ترکی جیسے ممالک نے اسی ٹیکنالوجی کی بدولت پانی کی کمی کے باوجود زرعی ترقی حاصل کی ہے۔ پنجاب کے کسانوں کو بھی ان طریقوں کی تربیت اور سبسڈی فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ پانی کے زیادہ مؤثر استعمال کی طرف راغب ہوں۔
عوامی سطح پر پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے آگاہی مہمات چلانا ضروری ہے۔ گھر، فیکٹری اور کھیت میں پانی کے استعمال کے کلچر کو بدلنا ہوگا۔ قومی سطح پر قانون سازی کی ضرورت ہے جس کے تحت پانی کے غیر ضروری استعمال پر جرمانے کیے جائیں اور ہر شہری کو اس کی اہمیت کا احساس دلایا جائے۔
بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو UNDP، ورلڈ بینک اور IPCC جیسے اداروں کی سفارشات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ ان اداروں نے واضح کیا ہے کہ پانی کے بحران سے بچنے کے لیے جامع واٹر مینجمنٹ سسٹم اور ماحولیاتی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ اگر پاکستان نے ان سفارشات پر عمل نہ کیا تو آنے والے برسوں میں یہ مسئلہ ناقابلِ قابو ہو جائے گا۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ پنجاب میں پانی کی کمی صرف ایک ماحولیاتی یا زرعی مسئلہ نہیں بلکہ بقا کا مسئلہ ہے۔ یہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر ہم نے ابھی سے موثر اقدامات نہ کیے تو وہ وقت دور نہیں جب پنجاب کی زرخیز زمین بنجر ہو جائے گی اور عوام کو بوند بوند پانی کے لیے ترسنا پڑے گا۔ لیکن اگر ہم ڈیم تعمیر کریں، جدید زرعی طریقے اپنائیں، پانی کے ضیاع پر قابو پائیں اور بین الاقوامی اداروں کی سفارشات پر عمل کریں تو یہ بحران ایک موقع میں بدل سکتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پانی کی بچت ہی ہماری زندگی کی ضمانت ہے۔
📍 English Language Educator | Blogger & Content Strategist | 7+ Years in Educational Blogging
Nosheen Bashir is a dedicated English teacher and experienced blogger with over seven years of expertise in content creation and educational writing. Passionate about language, literature, and effective communication, she combines her teaching experience with blogging skills to create insightful, research-backed content that helps learners and educators alike.
🔹 Expertise & Achievements:
✔ English Language Education: A skilled educator with years of experience in teaching English grammar, literature, and communication skills to students of varying levels.
✔ Educational Blogging: Running a successful blog for 7+ years, delivering well-structured, engaging content on language learning, writing techniques, and academic success.
✔ SEO & Content Strategy: Specializes in creating high-ranking, authoritative articles that follow Google’s EEAT principles, ensuring content that is both informative and search-friendly.
✔ Student-Centric Approach: Committed to making English easier, engaging, and accessible, helping readers and students improve their language proficiency.
🚀 With a passion for teaching and writing, Nosheen Bashir is dedicated to crafting educational content that empowers students, teachers, and language enthusiasts worldwide.