اگرچہ عورت نے دین و دنیا دونوں میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اسے متعدد سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سب سے بنیادی مسئلہ اپنے جائز حقوق سے محرومی ہے۔ ماضی میں بیٹی کو زندہ دفن کر دینا، بیوہ کو ستی کی آگ میں جھونک دینا، اور عورت کو وراثت یا تعلیم سے محروم رکھنا عام رویے تھے۔ بدقسمتی سے آج کے جدید دور میں بھی یہ رویے مختلف شکلوں میں جاری ہیں۔ پاکستان میں عورت کو وراثت میں حصہ نہ دینا ایک ایسا رویہ ہے جو نہ صرف شرعی احکام کی خلاف ورزی ہے بلکہ خواتین کو مالی اور معاشی آزادی سے محروم رکھنے کا سبب بنتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 80 فیصد خواتین کو وراثت کا قانونی حق عملاً نہیں ملتا، خاص طور پر دیہی علاقوں میں انہیں “زبان سے دستبردار” ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح، جنسی اور گھریلو تشدد بھی ایک تشویش ناک مسئلہ ہے۔ UN Women Pakistan کی رپورٹ کے مطابق، 2022 میں تقریباً 32 فیصد خواتین نے جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کیا، جبکہ ان میں سے اکثریت نے خاموشی اختیار کی یا انصاف تک رسائی نہ ہونے کے باعث دستبردار ہو گئیں۔ صرف جسمانی نہیں، بلکہ زبانی (verbal) اور نفسیاتی ایذا رسانی بھی عورت کے وقار کو مسلسل مجروح کرتی ہے
عورت کو تعلیم سے محروم رکھنا درحقیقت ایک نسل کو جہالت کی تاریکی میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ آج بھی دنیا کے کئی معاشرے، بالخصوص مسلم ممالک، اس بنیادی حق کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے تحت لڑکیوں کی ثانوی و اعلیٰ تعلیم پر پابندی ایک کھلی ناانصافی ہے، جہاں لاکھوں بچیاں اسکولوں سے دور ہیں۔ پاکستان کی صورتحال بھی کم افسوسناک نہیں؛ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں دو کروڑ بیس لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں نصف سے زائد لڑکیاں ہیں۔ قبائلی علاقوں، بلوچستان، اور اندرونِ سندھ میں بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے بجائے یا تو کم عمری میں بیاہ دیا جاتا ہے یا گھریلو کاموں تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف آئینی و اسلامی اصولوں کے منافی ہے بلکہ قوم کی اجتماعی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بھی ہے۔
جب بھی کوئی عورت اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرتی ہے—چاہے وہ تعلیم ہو، ملازمت ہو یا پسند کی شادی—تو اکثر اُسی کے اپنے گھر والے، جنہیں اس کا محافظ ہونا چاہیے، اُس کے سب سے بڑے استحصالی بن جاتے ہیں۔ خصوصاً پسند کی شادی جیسے فطری اور شرعی حق کو قبول کرنے کے بجائے، عورت کو نہ صرف سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اُسے غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ قندیل بلوچ کا قتل محض اس لیے ہوا کہ اس نے اپنی پہچان اور مرضی سے جینے کی خواہش ظاہر کی۔ حال ہی میں 2024 میں بلوچستان کے ضلع شنتی میں ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی کو صرف اس جرم میں بے دردی سے قتل کیا گیا کہ انہوں نے پسند کی شادی کی تھی۔ اسی طرح، کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں بھی ایک جوڑے کو 2023 میں سڑک پر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا، جب وہ اپنی مرضی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے۔ یہ محض انفرادی واقعات نہیں بلکہ ایک اجتماعی ذہنیت کا مظہر ہیں جو عورت کو اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کے بجائے، اس کے وجود کو مٹانے پر تُلی ہوتی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کی رپورٹ 2023 کے مطابق، پاکستان میں ہر سال کم از کم 1000 افراد، بالخصوص خواتین، غیرت کے نام پر قتل کیے جاتے ہیں، جن میں بڑی تعداد اُن عورتوں کی ہوتی ہے جو اپنے حقِ نکاح کا استعمال کرتی ہیں۔ یہ المیہ نہ صرف قانون کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے بلکہ سماجی رویوں کی سنگینی کا آئینہ دار بھی ہے، جہاں عورت کو آج بھی فیصلہ سازی کا حق نہیں دیا جاتا بلکہ اپنی مرضی سے جینے کی قیمت جان سے چکانی پڑتی ہے۔
“عورت اگر اپنے فیصلے خود کرنا چاہے تو یا تو وہ پاگل کہلاتی ہے یا بے حیا۔ حوالہ: بانو قدسیہ، راجہ گدھ، صفحہ 137
فرزانہ باری (پاکستانی ماہرِ سماجیات)
> “پاکستانی معاشرہ عورت کے حقِ انتخاب سے اس حد تک خوفزدہ ہے کہ وہ اسے مار کر خاموش کر دینا بہتر سمجھتا ہے۔”
(فرزانہ باری کا انٹرویو، BBC Urdu)
جبری شادی خواتین کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، جہاں لڑکی کو اس کی مرضی کے بغیر، اکثر خاندانی دباؤ، سماجی رسومات یا مالی مفادات کی بنیاد پر نکاح پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ رواج اب بھی دیہی اور قبائلی علاقوں میں خاص طور پر مضبوطی سے قائم ہے، جہاں لڑکیوں کو ونی، سوارہ یا قرآن سے شادی جیسے غیر انسانی رواجوں کے تحت قیدِ نکاح میں دھکیلا جاتا ہے۔ یونیسیف (UNICEF) کی 2024 رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی 18% تعداد کی شادیاں اُن کی مرضی کے بغیر ہوتی ہیں، جبکہ بیشتر کیسز میں لڑکی کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔ اس نوعیت کی شادیاں نہ صرف نفسیاتی صدمے کا باعث بنتی ہیں بلکہ خواتین کو تعلیم، آزادی اور خود مختاری سے بھی محروم کر دیتی ہیں۔
یقیناً! آپ نے ایک نہایت اہم اور حساس مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ نیچے ایک مختصر مگر بامعنی پیراگراف دیا جا رہا ہے، جس میں بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین کو درپیش جبری شادی، سماجی دباؤ اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے حقِ نکاح پر روشنی ڈالی گئی ہے، ساتھ ساتھ ایک حدیثِ مبارکہ کا حوالہ بھی شامل کیا گیا ہے:
صرف کم عمر لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین بھی جبری شادی، معاشرتی طعن و تشنیع، اور فیصلہ سازی کے حق سے محرومی جیسے شدید مسائل کا شکار ہیں۔ اکثر خاندان ان خواتین کو صرف ایک “بوجھ” سمجھ کر، ان کی رائے کے بغیر اُن کا نکاح طے کر دیتے ہیں، یا معاشرتی دباؤ کے تحت اُن پر دوبارہ شادی نہ کرنے کا دباؤ ڈالتے ہیں، حالانکہ یہ طرزِ عمل قرآن و سنت کے صریحاً منافی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“بیوہ عورت کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے، اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔”
📚 (صحیح بخاری، حدیث: 5136)
اسلام نے عورت کو حقِ نکاح، رائے، اور رضا کا مکمل اختیار دیا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ان اصولوں پر عمل کرنے کی بجائے، روایت، غیرت اور خاندان کی عزت جیسے تصورات کو فوقیت دیتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف ظلم ہے بلکہ عورت کی انفرادی آزادی، جذباتی سکون اور انسانی حیثیت کی نفی بھی کرتا ہے۔
یقیناً! نیچے ایک مختصر مگر گہرا پیراگراف پیش کیا جا رہا ہے جو عورت کی commodification یعنی “استعمالی شے” یا “مارکیٹ کی چیز” بنا دیے جانے کے عمل پر مبنی ہے، خصوصاً مغربی معاشرے کے تناظر میں، اور ساتھ ہی ہمارے اپنے معاشروں میں اس رجحان کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے:
مغربی معاشروں میں عورت کو آزادی اور مساوات کا نعرہ دے کر درحقیقت ایک کموڈیٹی (Commodity) یعنی منافع بخش جنس بنا دیا گیا ہے، جہاں وہ اشتہارات، فلموں، فیشن انڈسٹری اور میڈیا میں محض جسمانی نمائش کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اسے “خوبصورتی” اور “پرکشش ظاہری شخصیت” کے پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے، نہ کہ علم، کردار یا قابلیت کے معیار پر۔ بدقسمتی سے یہ سوچ اب ہمارے مشرقی معاشروں میں بھی سرایت کر چکی ہے، جہاں عورت کو کبھی جہیز کی قیمت پر تولا جاتا ہے اور کبھی صرف ظاہری حسن کی بنیاد پر منتخب یا رد کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ عورت کے وقار، اس کی شخصیت اور انسانیت کی توہین کے مترادف ہے، جس میں وہ صرف ایک “چیز” بن کر رہ جاتی ہے، نہ کہ ایک فکری، شعوری اور باوقار وجود۔
عورت کی مالی خودمختاری کو معاشرے میں ایک خطرہ سمجھا جاتا ہے، اور جب وہ گھر سے باہر کام کرنے کی کوشش کرے تو اسے یا تو کردار کشی کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا مذہب کے نام پر روکا جاتا ہے، حالانکہ اسلام نے حضرت خدیجہؓ کی مثال کے ذریعے عورت کے معاشی کردار کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اسے باعثِ فخر قرار دیا۔ بدقسمتی سے آج کے زمانے میں مذہبی احکام کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا جاتا ہے، تاکہ عورت کو “پردے”، “عزت” یا “خاندانی وقار” کے نام پر معاشی مواقع سے دور رکھا جا سکے۔ گھروں میں بھی اسے معاشی طور پر شوہر یا باپ پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے، اور اگر وہ خود کمائے بھی تو اکثر اس کی آمدن پر کنٹرول مردوں کا ہی رہتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف عورت کی خوداعتمادی کو کچلتا ہے بلکہ اس کی قابلیت اور آزادی کو بھی محدود کر دیتا ہے۔
📍 English Language Educator | Blogger & Content Strategist | 7+ Years in Educational Blogging
Nosheen Bashir is a dedicated English teacher and experienced blogger with over seven years of expertise in content creation and educational writing. Passionate about language, literature, and effective communication, she combines her teaching experience with blogging skills to create insightful, research-backed content that helps learners and educators alike.
🔹 Expertise & Achievements:
✔ English Language Education: A skilled educator with years of experience in teaching English grammar, literature, and communication skills to students of varying levels.
✔ Educational Blogging: Running a successful blog for 7+ years, delivering well-structured, engaging content on language learning, writing techniques, and academic success.
✔ SEO & Content Strategy: Specializes in creating high-ranking, authoritative articles that follow Google’s EEAT principles, ensuring content that is both informative and search-friendly.
✔ Student-Centric Approach: Committed to making English easier, engaging, and accessible, helping readers and students improve their language proficiency.
🚀 With a passion for teaching and writing, Nosheen Bashir is dedicated to crafting educational content that empowers students, teachers, and language enthusiasts worldwide.