پاکستان کا نظامِ تعلیم: خامیاں اور ترقی یافتہ ممالک سے تقابلی جائزہ

پاکستان کا نظامِ تعلیم: ایک تعارف

پاکستان کا نظامِ تعلیم ملک کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جو ایک فرد کو باشعور شہری میں ڈھالتی ہے اور معاشرے کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی ڈھانچہ کئی پیچیدہ مسائل کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں یکسانیت کی کمی، وسائل کی قلت، غیر معیاری نصاب، اور سرکاری و نجی اداروں کے درمیان تفاوت نمایاں نظر آتی ہے۔

پاکستان کا تعلیمی نظام اس وقت سنگین مسائل کا سامنا کر رہا ہے، لیکن اگر نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، اساتذہ کی تربیت بہتر بنائی جائے اور تعلیمی اداروں میں مساوات قائم کی جائے تو یہ نظام معاشرے کو روشن مستقبل عطا کر سکتا ہے۔

جیسا کہ نوبل انعام یافتہ ماہرِ تعلیم ملالہ یوسفزئی نے کہا تھا:

“One child, one teacher, one book, and one pen can change the world.”
(ترجمہ: ایک بچہ، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔)

پاکستان میں تعلیم کے درجات اور ادارے

پاکستان میں تعلیم (Education) کو مختلف سطحوں میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ ہر طالب علم اپنی صلاحیت اور دلچسپی کے مطابق آگے بڑھ سکے۔ سب سے پہلے ابتدائی تعلیم (Primary Education) ہے جو پانچویں جماعت تک فراہم کی جاتی ہے، اس کے بعد ثانوی تعلیم (Secondary Education) یعنی مڈل اور میٹرک آتی ہے جس میں بنیادی مضامین سکھائے جاتے ہیں۔ پھر اعلیٰ تعلیم (Higher/Tertiary Education) شروع ہوتی ہے، جو کالجز اور یونیورسٹیوں کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اس میں خاص طور پر فنی تعلیم (Technical Education) جیسے الیکٹریکل، مکینیکل اور ہنر سے متعلقہ کورسز، اور کمپیوٹر کی تعلیم (Computer Education) شامل ہیں تاکہ نوجوان جدید دور کے تقاضوں کو پورا کر سکیں۔ اسی طرح پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم (Professional Higher Education) بھی اہم ہے، جس میں طب (Medicine)، انجینئرنگ اور بزنس کی تعلیم شامل ہے۔ پاکستان میں کئی ادارے ان مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں، مثلاً یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (UET Lahore) انجینئرنگ کے میدان میں نمایاں ہے، آغا خان یونیورسٹی کراچی (Aga Khan University Karachi) طب اور میڈیکل سائنسز میں بہترین ہے، جبکہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد (Quaid-i-Azam University Islamabad) سماجی علوم، سائنس اور ریسرچ کے میدان میں معروف ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST Islamabad) جدید سائنسی اور کمپیوٹر کی تعلیم کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر پہچانی جاتی ہے۔

Pakistan’s International Education Ranking and Quality Challenges

Pakistan’s higher education institutions have achieved some recognition in global rankings. For example, 47 Pakistani universities were included in the Times Higher Education (THE) World University Rankings 2025, with Quaid-i-Azam University placed in the 401–500 band, while others such as NUST, COMSATS, Air University, and Government College University Faisalabad were ranked between 601–1000. Moreover, in the THE Impact Rankings for Quality Education, Pakistan had the highest representation worldwide with 114 universities listed, highlighting the country’s growing presence on the global stage.

However, despite these achievements, the overall quality of education in Pakistan remains weak. According to reports, Pakistan ranks 164th out of 193 countries in terms of educational quality, reflecting systemic shortcomings. Key issues include a large number of out-of-school children, weak educational policies, poor funding, outdated curricula, and limited focus on research and innovation. These problems highlight the urgent need for reforms in order to raise the standard of education and make it globally competitive.

پاکستان میں تعلیم کے مسائل

سب سے پہلے اگر ہم سکول ایجوکیشن کی بات کریں تو بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کو معیاری نصاب اور جدید سائنسی آلات (Scientific Instrumentation) تک رسائی نہیں ہے۔ متعدد اسکولوں میں لیبارٹریز اور لائبریری کا فقدان ہے جس کے باعث طلبہ عملی علوم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یونیسکو کی رپورٹ 2023 کے مطابق پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول سے باہر (Out-of-School Children) ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں شمار ہوتے ہیں۔

مزید برآں، یونیورسٹی ایجوکیشن کو بھی سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔ بیشتر جامعات میں تحقیق (Research) اور ریسرچ انسٹرومنٹیشن کے وسائل ناکافی ہیں، اور طلبہ کو عالمی معیار کی جدید معلومات تک رسائی نہیں مل پاتی۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کنیکشن کی کمی کی وجہ سے طلبہ جدید تعلیمی ذرائع اور لیٹسٹ انفارمیشن تک اپروچ نہیں کر پاتے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) پاکستان کی رپورٹ 2022 کے مطابق صرف چند جامعات ہی عالمی تحقیقاتی معیار پر پوری اترتی ہیں، جبکہ اکثریت وسائل کی کمی کا شکار ہے۔

اسی طرح، فنڈز کی کمی تعلیمی نظام کا سب سے بڑا رکاوٹ ہے۔ تعلیمی بجٹ کا تناسب جی ڈی پی کے مقابلے میں صرف 1.7 فیصد ہے، جو کہ خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ نتیجتاً اسکول اور کالج بنیادی سہولیات سے بھی محروم رہتے ہیں۔

آخرکار، ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سی بچیوں کو خاص طور پر اعلیٰ تعلیم (Higher Education) کے مواقع نہیں ملتے کیونکہ والدین انہیں گھر سے باہر نہیں بھیجتے۔ یہ صورتحال پاکستان میں تعلیمی نابرابری کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ ورلڈ بینک کی ایجوکیشن رپورٹ 2021 کے مطابق، پاکستان میں لڑکیوں کی یونیورسٹی میں انرولمنٹ کی شرح لڑکوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔

پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے مسائل

پاکستان میں خواتین کو تعلیم کے میدان میں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ سب سے پہلے، بہت سی بچیوں کو سکول جانے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی اور انہیں کم عمری میں گھریلو کاموں یا شادی کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ مزید برآں، والدین کی ایک بڑی تعداد اپنی بیٹیوں کو کالج اور یونیورسٹی بھیجنے سے ہچکچاتی ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں انہیں معاشرتی دباؤ اور روایتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کی تعلیم کی مخالفت کی جاتی ہے، حالانکہ اسلام نے عورت اور مرد دونوں کے لیے تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم (UNESCO Report 2023) کے مطابق، پاکستان میں 40 فیصد لڑکیاں پرائمری تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتی ہیں، اور یہ شرح دیہی علاقوں میں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی ترقی میں خواتین کی شمولیت محدود رہتی ہے۔ جیسا کہ مشہور مفکر جان اسٹوارٹ مل (John Stuart Mill) نے کہا تھا:“The worth of a civilization can be measured by the position that women occupy in it.”

(ترجمہ: کسی تہذیب کی اصل قدر و قیمت اس مقام سے جانی جا سکتی ہے جو عورت کو اس میں حاصل ہ

تعلیم کی اہمیت پر مشہور اقوال

امانوئل کانٹ (Immanuel Kant):

  • “Education is the most important problem of the human race.”
    (ترجمہ: تعلیم انسانی نسل کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔)
  • “Man can only become man by education.”
    (ترجمہ: انسان صرف تعلیم کے ذریعے ہی حقیقی انسان بن سکتا ہے۔)

جان ڈیوی (John Dewey):

  • “Education is not preparation for life; education is life itself.”
    (ترجمہ: تعلیم زندگی کی تیاری نہیں بلکہ خود زندگی ہے۔)

نیلسن منڈیلا (Nelson Mandela):

  • “Education is the most powerful weapon which you can use to change the world.”
    (ترجمہ: تعلیم سب سے طاقتور ہتھیار ہے جسے استعمال کر کے آپ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔)

شاعر مشرق علامہ اقبال:

  • “تعلیم کے بغیر قومیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔”

ترقی یافتہ ممالک کا تعلیمی نظام اور پاکستان سے موازنہ

امریکہ، برطانیہ، جاپان اور ترکیہ کا تعلیمی نظام پاکستان کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور مضبوط ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک اپنی قومی آمدنی (GDP) کا زیادہ حصہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ اپنی جی ڈی پی کا تقریباً 5.4 تا 5.6 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے، جو عالمی اوسط سے زیادہ ہے (Education Data, 2023)۔ اسی طرح برطانیہ تقریباً 6.6 فیصد جی ڈی پی تعلیم پر خرچ کرتا ہے، اور وہاں اسکول کی سطح سے ہی بچوں کو فنی تعلیم (Technical Education) اور T-Levels کے ذریعے عملی تربیت دی جاتی ہے (UK Gov Report, 2023جاپان تقریباً 4 فیصد جی ڈی پی تعلیم پر لگاتا ہے اور وہاں کا Kōsen System نہایت مؤثر ہے، جس کے ذریعے اسکول کے بعد پانچ سالہ انجینئرنگ اور سائنسی تربیت فراہم کی جاتی ہے (OECD Data, 2023ترکیہ بھی تعلیم پر پاکستان سے کئی گنا زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے، اور وہاں ووکیشنل ایجوکیشن کو لازمی جزو بنایا گیا ہے تاکہ طلبہ عملی زندگی کے لیے تیار ہوں۔

اس کے برعکس، پاکستان اپنی جی ڈی پی کا صرف 1.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے (یونیسکو رپورٹ 2023)، جس کے باعث نہ تو اسکولوں میں جدید سائنسی آلات دستیاب ہیں، نہ ہی کالجز اور یونیورسٹیوں میں ریسرچ اور انٹرنیٹ سہولیات ہر جگہ مہیا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی طلبہ عالمی معیار کی تعلیم اور فنی تربیت میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

جاپان اور جرمنی کے تعلیمی نظام کی ترقی کا راز

جاپان کی تعلیمی ترقی کا سب سے بڑا راز اس کا سماجی تعلیم (Social Education) اور نظم و ضبط (Discipline) پر مبنی ماڈل ہے، جس میں اسکول بچوں کو صرف نصابی علوم نہیں بلکہ معاشرتی ذمہ داریاں، ٹیم ورک، صفائی اور قومی شعور بھی سکھاتے ہیں۔ اسی لیے جاپانی طلبہ نہ صرف تعلیم یافتہ ہوتے ہیں بلکہ ایک مثالی شہری بھی بنتے ہیں۔ مزید برآں، جاپان نے اپنے اسکولوں اور کالجوں میں جدید سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence – AI) کو بھی شامل کیا ہے۔ طلبہ کو کم عمری سے ہی AI-based Information Retrieval Techniques، روبوٹکس اور ڈیجیٹل پروگرامنگ سے متعارف کرایا جاتا ہے تاکہ وہ مستقبل کی ٹیکنالوجی کے چیلنجز کا سامنا کر سکیں۔

اسی طرح جرمنی کا تعلیمی ماڈل بھی دنیا بھر میں بہترین مانا جاتا ہے۔ وہاں کا Dual Education System اس لیے منفرد ہے کہ اسکول کی سطح سے ہی بچوں کو کلاس روم تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تربیت اور انڈسٹریز میں عملی تجربہ فراہم کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں جرمنی نے بھی اپنی ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز اور اسکولوں میں AI اور ڈیجیٹل اسکلز کو نصاب کا حصہ بنایا ہے، تاکہ طلبہ جدید سائنسی و ٹیکنیکل میدانوں میں آگے بڑھ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان اور جرمنی جیسے ممالک تعلیم کو براہِ راست معاشرتی و معاشی ترقی کے ساتھ جوڑتے ہیں، جبکہ پاکستان میں یہ پہلو ابھی بہت کمزور ہ

“The roots of education are bitter, but the fruit is sweet.”Aristotle, Politics.

📍 English Language Educator | Blogger & Content Strategist | 7+ Years in Educational Blogging

Nosheen Bashir is a dedicated English teacher and experienced blogger with over seven years of expertise in content creation and educational writing. Passionate about language, literature, and effective communication, she combines her teaching experience with blogging skills to create insightful, research-backed content that helps learners and educators alike.

🔹 Expertise & Achievements:
✔ English Language Education: A skilled educator with years of experience in teaching English grammar, literature, and communication skills to students of varying levels.
✔ Educational Blogging: Running a successful blog for 7+ years, delivering well-structured, engaging content on language learning, writing techniques, and academic success.
✔ SEO & Content Strategy: Specializes in creating high-ranking, authoritative articles that follow Google’s EEAT principles, ensuring content that is both informative and search-friendly.
✔ Student-Centric Approach: Committed to making English easier, engaging, and accessible, helping readers and students improve their language proficiency.

🚀 With a passion for teaching and writing, Nosheen Bashir is dedicated to crafting educational content that empowers students, teachers, and language enthusiasts worldwide.

Share This Post:

Discussion

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *