لاہور کی ہیرا منڈی اب نہیں رہی

‏سنجے لیلی بھنسالی کا اپنا سینما ہے۔ وہ اپنی ہیروئنز کو سونے کا لباس پہناتا ہے مگر آنکھ ہمیشہ نم رکھتا ہے۔
دیوداس کی ایشوریا ہو یا پدماوتی کی دیپیکا سنجے کی فلموں کی ہیروئن ہمیشہ کسی سانحے سے گزرتی دل تنگ و بے آرام ہی دکھے گی۔
.لاہور کی ہیرا منڈی اب نہیں رہی

داستانیں موجود ہیں مگر قدیم ہجروں کے نقوش زمانے

کی ہوائیں چاٹ گئی۔
اب کوٹھے وہ نہیں رہے جہاں معزز گھرانوں کے شہزادے

 تربیت آداب و نفاست کے گُر سیکھنے کے لئے بھجوا دیے جاتے تھے۔

کوٹھے کی بالکنی سے غالب کی غزل ترنم میں گنگنا کر راہ چلتے گراہک متوجہ کرتی طوائفیں چل بسیں

اب کوٹھے کے مناظر منٹو کے افسانے اور اقرار الحسن کے سرعام چھاپے والے ہیں۔

اب کوٹھوں کی تعداد تو شاید پہلے زمانوں سے کہیں زیادہ ہو مگر انہیں منظم کرنے والے اور قانون دینے والے کتراتے ہیں ۔

کوٹھوں کی جگہ ہوٹلوں کے کمروں نے لے لی طوائفوں کو کال گرلز کا نام مل

‏گیا مگر خریدار وہی رہے اس بیچ ضرورت نہیں بدلی۔
جسم فروشی کی قانونی حیثیت یا قدغن پر بحث ہوتی رہی بحث کا موضوع ہمیشہ جسم فروشی کو بند کرنا یا قانونی حیثیت دینا رہا مگر کبھی اس پیشے میں کام کرنے والی عورت کی فلاح اور معاشرے میں اسے استحکام اور متبادل روزگار دینے پر عملی گفتگو نہیں ہوسکی

‏۔
طوائف کو دوسرا پیشہ راس کیوں نہیں آتا یہ مشکل اور قدرے پیچیدہ مگر دلچسپ کیس اسٹڈی ہے اس کے لیے غلام عباس کا افسانہ ‘بھنور’ ضرور پڑھیے۔ پچیدگی اور دلچسپی برابر ملے گی۔
بات سنجے لیلی بھنسالی کی نیٹ فلکس پر نمودار ہونے کو تیار لاہور کی پرانی ہیرا

‏منڈی کی طوائفوں کی زندگیوں پر مبنی سیریز ہیرا منڈی کی ہورہی تھی کہ اس میں سنجے نے اسکرپٹ کا سِرا کدھر سے پکڑا ہوگا۔
مظلوم طوائف، مجبور طوائف اور جی دار اور نڈر طوائف یہ اینگل بالی وڈ بہت دوہرا چکا۔ ہم بہت دیکھ چکے۔
سیریز میں سلیقہ شعار اور وضع دار طوائف امراؤ جان

‏ادا کے کردار پر مشتمل لاہور کی طوائفوں کی ذاتی زندگی کی روزمرہ کی کہانیاں ہوسکتی ہیں۔ چلبلی طوائفوں کے بزرگ طلبگار جوان عاشق، بگڑے نواب، ڈاکو لٹیرے، مزدور تماشبین اور دلالوں کے قصوں پر اسکرپٹ مشتمل ہوسکتا ہے۔
یہ سب ہوسکتا ہے یا ان سب سے مختلف کچھ دیکھنے کو مل سکتا ہے

‏مگر ایک بات طے ہے کہ سنجے لیلی بھنسالی کی پروڈکشن میں ہمیں عالیشان سیٹ، جیولری ، نزاکت، میوزک اور تاریخی پینٹنگ میں ہاتھ سے بھرے فکشن کے اضافی رنگ دیکھنے کو ملیں گے جس پر دیکھنے کے بعد لمبی بحثیں چھڑنے والی ہیں۔

Credit:۔ سندس جمیل

Share This Post:

Discussion

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *